سنبھل شہر بہت ہی زرخیز میدانوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس شہر کی آبادی نو لاکھ ہے۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمان اور یادو اقوام پر مشتمل ہے۔ یہاں اچھی تعداد میں تعلیمی ادارے ہیں جو عمومی اور تکنیکی تعلیم کی تدریس و اشاعت کا کام کر رہے ہیں۔ شہر شکر، سبزیوں اور دیگر زراعی اجناس کے بازار کی حیثیت سے مقبول ہے۔ یہ مشاہدہ دلچسپ ہے کہ یہاں مسلم قوم کی لڑکیاں بھی بغیر کسی تہذیبی بندش کے اسکول اور کالج جاتی ہیں۔ شہر کے کچھ تجارتی خاندان ہاتھ سے بنے کپڑوں، چمڑوں کے سامان اور عطر سازی کی اشیا کی تجارت وغیرہ سے وابستہ ہیں۔ انہی میں سے ایک نہایت سخی ہمدردو انسان دوست جناب ندیم تریں، جنہوں نے اردو یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد سے تفصیلی تبادلۂ خیالات بعد یونیورسٹی کو اردو ذریعۂ تعلیم سے بی ایڈ کورس چلانے کے لیے اور اس مقصد کے پیش نظر کالج برائے تدریسِ اساتذہ کے قیام کے لیے بارہ ایکڑ زمین بطور عطیہ دیی تاکہ ملک اور بالخصوص اس علاقے کے طلبا و طالبات مزکورہ کورس سے استفادہ کرسکیں۔ یہاں سے نکلنے والے تربیت یافتہ اساتذہ کے سبب مقامی انتظامیہ کو اردو میڈیم اسکولوں میں تقرر کی سہولت حاصل ہوسکے گی جہاں اردو ذریعۂ تعلیم سے تربیت یافتہ اساتذہ کی عدم دستیابی ہے جب کہ مانو کے تربیت یافتہ اساتذہ ثانوی اور اعلیٰ ثانوی دونوں کی سطحوں پر تدریس کے لیے مکمل طور پر مناسب اور اہل ہوں گے۔
اس طرح مقامی حلقے کے لوگوں کی خواہشات اور شرکت کے مد نظر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے سنبھل میں کالج برائے تعلیمِ اساتذہ کا قیام عمل میں لایا ہے۔ یونیورسٹی اب تک چہاردیواری تعمیر کرانے اور عمارت و تجربہ گاہوں کو ضروری اشیا سے آراستہ کرنے میں دو کروڑ روپے خرچ کرچکی ہے۔ اردو یونیورسٹی کی یہ پیش قدمی نہ صرف مقامی اردو داں طلبہ کو مستفیض کر رہی ہے بلکہ ان افراد تک پہنچنے کے یونیورسٹی کے نصب العین کی تکمیل بھی کر رہی ہے جن تک ابھی رسائی نہیں ہوسکی ہے۔
|